ہم بہت محنت کررہے ہے تاکہ پختونخوا آئی ٹی کی فیلڈ میں بہت آگے تک جائے ۔ پر سوچھنے کی بات ہے کہیں ہم غلط سمت تو نہیں جارہے ؟ پختونخوا میں تقریبا اکتیس یونیورسٹیاں ہیں جس میں بیشتر میں “آئی ٹی، کمپیوٹر سائنس، اور سوفٹویر انجینئرنگ” کی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ جس سے ہر سال سینکڑوں گریجویٹس فارغ ہوتے ہیں۔
یہی گریجویٹس بعد میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور جوبز نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ انہوں نے یونیورسٹی سے وہ سب کچھ نہیں سیکھا جو ان کو اچھے جاب ملنے کی ضامن ہو۔ ہاتھ میں خواہ ڈگری ہو، پر کام کے کچھ نہیں ہوتے۔ کیونکہ آئی ٹی کا فیلڈ پریکٹیکل فیلڈ ہے یہاں خواہ کوئی سفارش سے نوکری پر لگ جائے پر ان کی نوکری تھوڑی دن کیلئے نہیں ٹھکتی کیونکہ ان سے کام مانگا جاتا ہے۔
انہی ‘تعلیم یافتہ جاہل’ گریجویٹس کے بارے میں آئی بورڈ اور ورلڈبینک فکر مند ہو کر ان کیلئے ٹرینگز اور سیمینار کا انعقاد کرتی ہے، جوکہ خوش آئند ہے، تاکہ معاشرے میں بیروزگاروں کی تعداد میں اضافہ نہ ہو۔
پر۔۔
کیا ہم نے آئے سال یونیورسٹیوں سےفارغ ہونے والے “مستقبل کےبیروزگاروں ” کی فوج کا سوچھا ہے؟ کیا ہم نے ان یونیورسٹیوں کا کچھ سوچھا ہے جو کسی فیکٹری کے طرح لگے ہے اور معاشرے کو اور بےروزگار دے رہے ہیں؟
ہمیں مرض کو ختم کرنا چاہئے نا کہ علیحدہ ایک ایک مریض کا علاج
سارے مسئلے کی جڑ یونیورسٹیوں میں نام نہاد کے وہ لیکچررز اور پروفیسرز ہے جو کچھ وہ آپ کو پڑھاتے ہے، خدا قسم ایک دو کو چھوڑ کر باقی کسی کو خود ٹوپک پر عبور حاصل نہیں ہوتا۔ بے روزگار یہ اسی لئے ہوتے ہیں کیونکہ کسی نے ان کو شوق سے پروگرامنگ(ٹیکنالوجیز) نہیں سکھائی ہوتی ہے۔ اگر ایک استاد کو خود عبور حاصل ہو، تو وہ بہت اچھا پڑھائے گا ، اور ساری زندگی کیلئے موٹیویٹ کرےگا۔ جو خود کچھ نہیں جانتا، خاک کسی کو موٹیویٹ کرےگا؟
مسلئے کا حل
– پختونخوا کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو انٹرنشنل پروگرامرز اور پروفیشنلز سے تربیت دی جائے۔ اور ان کے(پریکٹیکل) صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے۔ ان کو ٹیچنگ کی باقاعدہ تربیت دی جائے، تاکہ وہ اچھا ڈیلیور کرسکے۔
اگر کسی کا اعتراض ہو کہ اتنے ڈھیر سارے اساتذہ کو ٹرین کرنا مشکل ہے اور ان کے دماغ اب اور سیکھنے کی زیادہ صلاحیت نہیں رکھتی، تو یونیورسٹی میں کسی بھی جوان ایسے لیکچرر کو ٹرین کیا جائے جسے ماڈرن ٹیکنالوجیز پر عبور حاصل ہو۔ جس کے پاس لو لیول سے لیکر ہائی لیول کے ٹیکنالوجیکل ٹولز اور پروگرامنگ لینگوجز پر عبور حاصل ہو، جو پروگرامنگ کے مضامین خصوصی طور پرپڑھائے اور سکھائے۔
نیچھے اور اصلاحات بھی درج ہے
آئی بورڈ کے ٹیکنکل ماہرین ایچ ای سی سے منظور شدہ سلیبس پر نظر ثانی کریں، وقتا فوقتا ایچ ای سی کو نئے دور سے ہم آہنگ مضامین پرسفارشات بھیجے ۔ یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والے طلباء کی ایسسمنٹ کی جائے، اور ان کی تعلیم میں رہ جانے والی کثراور کمی کو پورا کیا جائے۔
فارغ ہونے والے ہر طالبعلم پر انٹرنشپ لازمی قرار دیا جائے، ان کو پروفیشنل انڈسٹری میں پھلنے پھلونےاور پنپنے کا موقع دیا جائے۔ طالبعلم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ان کو ڈگری دی جائے۔
پشاور اور ایبٹ آباد کے ٹیک ویلیز اور آئی پارک میں انٹرنسپس کے سلیکشن پراسس پر نظر ثانی کی جائے، انٹرنشپ کا دورانیہ کم کیا جائے، سٹائپنڈ کم کیا جائے، انٹرنشپ جو پورا سال چلتا رہے، اس سے ہر طالبعلم کو انٹرنشپ کا موقع ملے گا۔
انٹرنیٹ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بیک بون کی حیثیت حاصل ہے۔ انٹرنیٹ کی رسائی کو آسان تر بنایا جائے۔ انٹرنیٹ پر لوکل فلٹرز(فائر والز) کا قانون لاگو کیا جائے جس سے ہمارے بچے بھی انٹرنیٹ سے استفادہ کریں،فلٹرز سے بڑوں بزرگوں کا انٹرنیٹ پر اعتماد قائم رہےگا۔
ہیکاتھانز ، سپیڈ پروگرامنگز ، آیڈیا کمپٹیشنز ، پراجیکٹ اور پراڈکٹ کمپٹیشنز کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔
طلباء کو باہر انٹرنشپس، والنٹیرشپ کیلئے راغب جبکہ انٹرنشنل ماہرین کو پختونخوا آنے پر راضی کیا جائے۔ سب سے بڑھ کر جائنٹ کمپنیز جیسے گوگل کو پاکستان آنے میں سہولت اور مدد فراہم کی جائے، گوگل اور ان جیسے کمپنیز اپنے ساتھ ہزار بہترین مواقع بھی ساتھ لاتی ہے۔
آئی ٹی میں ترقی کیلئے آئی ٹی کا ماحول بنانا لازمی ہے۔
اگر ہم نے ایسا کیا تو انشاءاللہ ہم میں بہت سے بیری بوہم، بیرنے سٹورسٹرپ، جیمز گوسلنگ، مارک زکربرگ، لینس ٹورولڈز ، ڈونلڈ نوت، ایڈا لولیس جیسے ہزار ہا بہترین پروگرامرز اور انجینئرز پیدا کرستے ہے۔
اصل مسئلہ یونیورسٹیوں کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹس اور آئی ٹی بورڈ کے درمیان فاصلہ ہے۔ اگر ان کے اس خلاء کو ختم کیا جائے تو ہمیں مستقبل میں اس کے دور رس نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔