بدھ کی شام ہمیں اطلاع موصول ہوئی کہ آپ جس ویدر ونڈو کا انتظار کررہے تھے بالآخر وہ وقت آگیا ہے کہ آپ دوہ سرو کا باقاعدہ بالکل صفائی سے مشاہدہ کرسکتے ہیں۔

دوہ سروسوات کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس پر آن لائن ڈاٹا موجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوہ سرو پر چڑھنا اور چڑھ کر کیمپنگ کرنا میرے بکٹ لسٹ میں شامل تھا۔ جس کو دیکھنا اور مشاہدہ کرنا بحرصورت میں نے کرنا تھا۔

 

میں نہیں جاسکتا کیونکہ مجھے کچھ کام ہے” یہ مشہور زمانہ ڈائیلاگ کسی اور کا نہیں بالکہ میرے ساتھ ہمیشہ ایک ہی کال پر تیار ہونے والے زاہد کی تھی۔ “ارے بھائی محرم کی چھٹیاں ہے تو ہم کچھ آگے پیچے کرکے یہ کرسکتے ہیں” میرے کہنے پر جب وہ راضی نہ ہوا تو اپنے ضد کے آگے خود ہی ڈھیر ہوکر میں نے اکیلے جانے کا فیصلہ کرلیا۔

 

محمد کریم بی بی اے آخری سال کا طالبعلم ہے اور اعلی پائے کا شکاری ہے۔ کم عمر ہونے کے باوجود پختہ عمر شکاریوں جیسا وسیع بارہ سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔گلی میں  ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں پہاڑی زکر آنکلا ، میرے استفسار پر کریم صاحب نے مجھے ساتھ لے جانے کا وعدہ کرلیا۔محمد کریم شمالی پہاڑی علاقہ جات کے چھپے چھپے کو جانتا ہے، بالکہ وہاں پر رہنے والے سب سے واقفیت رکھتا ہے۔ مجھے جیسے ہی موسم کی کال آئی میں نے محمد کریم سے رابطہ کیا جو انہوں نے ایک سیکنڈ میں قبول کرلیا۔ ہم نے کل سویرے جانے کا پروگرام بنا لیا۔ یاد رہے محمد کریم ہمارے ہمسایہ ہے ۔

میری ہائیکنگ یا ٹریکنگ کی فائل اتنی مضبوط نہیں ہےبس گبین جبہ، قادر بانڈہ یا جاروگوں آبشار اور اس جیسے ٹریکس کرنے کا تجربہ رکھتا ہوں ، لیکن یہ والابہت مختلف ہے۔

 

دوہ سرے ہمارے ہی گاوں کے جنوب مشرق میں پھیلے ایک وسیع رقبے پر پڑا ہے۔ جس کے بارڈر شانگہ کوکاری اور بونیر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ دوہ سرو پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہے دو سرو والا پہاڑ۔کیونکہ اس پہاڑ کے دو چوٹیاں ہے جو کہ قریب ہے، ایک پر چڑھ کر دوسرا اونچا دکھتا ہے جبکہ دوسرے پر چڑھ کر دوسرا اونچا دکھتا ہے۔ دوہ سرو کا سن کر لوگوں کے ذہنوں میں عجیب عجیب طرح کے خیالات آتے  ہیں، جس پر جانے والوں کو لوگ منت کراکر رکواتے ہیں۔ راستہ بہت لمبا ہے جبکہ اونچائی بھی زیادہ ہے، خونخوار جانور کسی بھی لمحے  آدھمکتے ہیں، سنگلاخ چٹانیں ہیں، تو کسی کے خیال میں بھوت اور پریاں بھی ہے۔ چلئے، انہیں چیزوں کو ڈھونڈنے کیلئے تو ہم جارہے ہیں، جس کا زکر میں واپس آکر کروں گا۔

 

جمعرات کی صبح ساڑھے پانچ بجے ہم بائیک پر سوار ہو کرتقریبا پنتالیس منٹ میں شنگرئی سے ہوتے ہوئے کس پہنچے۔محمد کریم کی خواہش تھی کہ ہم بائیک کو ان کے جاننے والوں کے  گھر پارک کرکے آگے جائے،۔ تاکہ اطمینان سے جتنے دن ہو گزارے۔کس میں بائیک کھڑی کرکے ہم نے آگے کا سفر شروع کیا۔ 

 

کس شنگرئی سطح سمندر سے اونچائی

 

سفر کے شروع میں انسان کو کچھ ڈر ہوتا ہے اور مجھے سانس چڑھنے کا تھا۔ میرے بار بار پلین کرنے پر میں نے ایک بھی دن پیدل سفر نہیں کیا حالانکہ ماضی میں میں روزانہ بیس سے تیس ہزار قدم لیتا تھا۔  ایک سال ہونے کو ہے میں نے ایک دن میں ایک ہزار سے زائد قدم نہیں رکھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میں سفر سے پہلے فل فارم میں ہوتا لیکن میرے آج تک کا کوئی بھی سفر پلین کئے نہیں تھا، اسی لئے اس ایکسپیرنس کو جاننے کا موقع دیا کہ انسان بالکل فٹ نہ ہو کر کیسے محسوس کرتا ہے؟ 

کس شنگرئی سے ایک گھنٹہ مسلسل سفر کیا تو جلو پہنچے۔ محمد کریم کے مطابق پیدل سفر کرنے میں کھجوریں بہت بہترین ہوتی ہے لہذا ہم نے بہترین قسم کے دو پیکٹ کھجوریں ساتھ رکھے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صبح جلدی میں ناشتہ تک نہیں کیا، حالانکہ ہمارا دن چائے سے شروع اور چائے پر ختم نہ ہوجائے تو وہ دن ہمارے زندگی میں شمار نہیں۔ پر یہ نیا ایکسپیرئنس بھی کرنا تھا، سو گھر سے نکلتے ہوئے میں نے جلدی میں دو چار سیب اور ناشپاتیاں لی کہ اگر ضرورت پڑجائے۔ اب سیب کے ساتھ کھجوریں کھائیں تو اچھا محسوس ہوا۔ دو چار فوٹوز لے کر بیگ اٹھائے اور آگے چل دئے۔ 

 

میں سفر پر ہمیشہ اپنی ایک غلطی ختم کرنے کی کوشش کرتا ہوں ، اب مسئلہ یہ ہوا کہ مسئلے تو ہزار ہے کونسے والا ختم کرو۔ خیر اسی سوچ سوچ میں پتلی پکڈنڈیوں پر جاتے جاتےاچرو کے راستے پر جبڑ پہنچے۔میرا سٹیمنا جواب دے گیا تھا۔ عام سا راستہ ہوتا تو کوئی مسئلہ نہیں پر یہاں تو ہزاروں میٹر اوپر چڑھنا ہے۔ خیر اللہ کرتے کرتے ہم جبڑ سے  لیونو  اور لیونو سے ہوتے ہوئے ازبکہ پہنچے۔ابھی پنتالیس بج کر دس بج رہے تھے تو ازبکہ میں محمد کریم کا جاننے والا ایک دکاندار تھاجس سے ہم نے سودا سلف لینا تھا، محمد کریم کے مطابق انکا سودا سلف اچھا تازہ ہوتا ہے اور ہمیں نیچے خرید کر سے یہاں تک نہ لانا پڑتا، جس کی میں نے مکمل تائید کی۔ دکان پر پہنچتے حمد علی نے چائے کا کہا اور ہمیں اوپر اپنے گھر لینے کیلئے ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ اب پوچھئے مت میں سارے راستے اتنا نہیں تھکا تھا جتنا اس راستے پر تھک گیا۔ ان کا گھر کوئی ایک گھنٹے کے فاصلے پر تھا پر وہ بھی ایسا کہ اوپر دیکھتے ہوئے ٹوپی سر سے گرے۔ اللہ اللہ کرکے ہم گھر پہنچ گئے تو میں نے ایک چارپائی پر جب فوم دیکھا توآو دیکھا نا تاو اور سیدھا ایک ٹن وزن والا بیگ ایک کونے میں پھینک کر جلدی اس پر چت لیٹ گیا۔ اتنا تھک کر انسان کو جب راحت ملتی ہے تو راحت جلدی بھی نہیں ملتی آپ نے صبر کرنا ہے اور میں نے خوب صبر کیا۔ خیر پانی پینے کے بعد اب انہوں نے کھانا لگا دیا تو میں نے صرف دیسی کھانا کھانے کا عندیہ دیدیا کہ ہم شہری لوگوں کو صرف یہی موقع ملتا ہے دیسی کھانا کھانے کا، اور ہوا بلکل میرے مرضی کے مطابق، ہمیں دودھ کے ساتھ بہترین ٹیست والا دہی اور روٹیاں ملی، جو ہم نے پیٹ بھر کر کھائی۔ ساگ میں نہیں کھاتا کبھی اسی لئے اس کا زکر نہیں کیا۔ حمد علی سمارٹ پرسنلٹی کا مالک اوپر سے واسکٹ اور میٹھی میٹھی باتیں مجھےنیند ہی کے طرف کھینچ لائی ، پر میں نے نیند کو اسی لئے بھگایا کہ ابھی اچھا وقت نہیں ہے، حمدعلی زیرک دماغ کے مالک نے جب میری اور نیند کی یہ جنگ دیکھی تو مشورہ دیا کہ اچھا تو یہ ہے کہ صبح سویرے اٹھ کر چلے جائے،حمد علی نے جیسے میری دل کی بات کی، پر محمد کریم بضد تھے کہ دوہ سرو تو ابھی جانا ہے۔ خیر حمد علی کے سمجھانے پر محمد کریم مان گئے۔ہم نے تھوڑی دیر آرام کیا، تومحمدکریم نے پڑوس میں ایک دوست سے ملنے کا  کہا اور ہم اوپر چل دئے۔ اب کی بار اس دوست نے پھر سے گھر میں چائے کاکہا، چائے کے بعد کہا کہ اب ہمارے پس شام تک کا ٹائم ہے لہذا سب ازبکہ ڈب یا درب جائے۔ ساتھ میں ان لوگوں نے بندوقیں اور ساز و سامان لیا اور چل دئے۔ میرے قسمت میں ان دنوں صرف اوپر کا چڑھنا ہی لکھا ہے، درب تک پہنچنے کیلئے پھر سے اتنا سخت راستہ، اف۔خیر ان محمد کریم و دوست نے شکار کیا میرا کیا ہے میں تو شکار کو پسند نہیں کرتا اور ہر اڑتے پرندے کی خیر کی دعا کرتا، میں تو قدرت کے بنائے عجیب و غریب پہاڑوں کے نشے میں دھت ٹائم گزار رہا تھا کہ واپسی کا فیصلہ ہوا۔ واپسی پر ہمیں  بہترین قسم کا شہد اصلی گھی میں بگو کر دیا جو میں نے خوب کھایا۔ اسی کی تو ہمیں یہاں ضرورت تھی، زائقہ تو اچھا تھا ہی پر مجھے کل کیلئے پریشان ہوا تھا کہ کل اور چڑھائی کیسے کرونگا، اسی کیلئے مجھے اسی گھی کا طاقت چاہئے تھا۔ہاہاہا، حمدعلی نے جب میری پریشانی دیکھی تو کہا کہ پڑوس میں ایک بندہ ہے اسی کو کہہ کر وہ آپ کا گائڈ بھی بنے گا اور میرے والا بیگ بھی لے کے جائے گا۔ آندھے کو کیا چاہئے، دو آنکھیں، میں بہت خوش ہوا، اور مزے کی نیند سونے کی کوشش کرنے لگا۔ تھوڑی دیر ہونے کو تھی کہ بارش شروع ہوگئی، تو میں نے جلدی کھڑکیاں بند کی ، دیر تک پاوں میں درد ہونے کے بنا نیند ہی نہ آئی، دوسرا بستر ایسے ڈھلان جیسا تھا جس پر سیدھا ہی لیٹا جاسکتا تھا جو میں کبھی نہیں سوتا، جب تھک گیا تو داہنے ہاتھ کروٹ بدلا، کروٹ بدلتے کچھ تڑاخ کی آواز آئی اور مجھے لگا کہ میرا کمر ٹوٹ گیا ہے پر کنفرم کرنے پر پتہ چلا کہ صرف وارننگ تھی لہذا مجھے واپس سیدھا لیٹنا پڑا۔ رات کے کتنے پہر پتہ نہیں آنکھ بند ہوئی۔

 

صبح آنک کھلی تو بچی کو کمرے کے دروازے سے جھانکتے ہوئے پایا، کہا ابو بتا کر گئے ہے کہ مہمانوں کو گرم پانی اور چائے لا کے دینا، ہم نے گرم پانی سے ہاتھ منہ دھویا اور چائے کے چسکے لینے لگے۔دو پراٹھے تو کھائے اور تیسرا جیب میں ٹھونس دیا کہ کام آجائے گا، ویسے آپ ہمیں جج نہ کریں یہ میزبان کا ہی آئڈیا تھا۔ حمد علی سے ہم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ صبح اپنا کام کرنے جائے گا کیونکہ ہم سویرے نکل جائے گے۔ بچی کو اس بندے کے گھر بھیج دیا جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ ساتھ چلے گا۔ پر بچی واپس آئی اور کہا کہ وہ سو رہا ہے، سات بج رہے تھے اور ہم اور انتظار نہیں کرسکتے تھے، لہذا طے ہوا کہ ہم اکیلے ہی چلے، میرے اوپر تو جیسے آسمان گرا، کہ یہ بھاری بیگ میں نے لے کر جانا ہے، پر محمد کریم کے دلاسے پر میں نے رونی صورت واپس ٹھیک کردی۔

 

صبح کا آغاز بہت اچھا ہوا، میرے جسم میں پتہ نہیں طاقت کہاں سے آئی تھی لیکن مجھے اچھا محسوس ہورہا تھا۔اب ہمیں دریا کے سائڈ پر چل چل کر آگے جانا تھا، بانی دیکھ کر محمد کریم کو نہانے کا سوجھا، اتنے سردی میں ٹھنڈ بھرے بانی میں نہانا، میرے لاکھ منع کرنے پر وہ بضد تھا اور غوطہ لگا دیا۔ اچھا ہوا پانچ منٹ گزر کر جب محمد کریم کے ذہنی و جسمانی خدوخال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو میں نے سکھ کا سانس لیا کہ چلو اب اسے ہی بیگ کے بجائے واپس کسی گھر یا ہسپتال لے کے جانا پڑے گا۔ محمد کریم کو جب اسی ڈر کا پتہ چلا تو کہا کہ میں برف بھرے میں بھی نہا سکتا ہوں اور اس میں مچھلیاں پکڑنے کا اپنا مزہ ہے۔ چلتے چلتے ہم نے میوزیک لگایا اور گپ سب کرتے آگے چل دئے۔

 

دوہ سرو جانے کے خواہشمند حضرات پورا پلین کرکے آتے ہیں لیکن سب سے مشہور جگہیں جو دیکھنے لائق ہے وہ ہے کوہ نڑ یا کونڑ، دوہ سرو ڈب، دوہ سرو سوکئی، اور غوجلو ڈب۔ غوجلو ڈب چونکہ راستے میں نہیں آتا لہذا اس کیلئے الگ سے راستہ ہے اور علیحدہ دن درکار ہے، جبکہ باقی دو تو راستے میں آتے ہیں۔

 

ٹھیک بیس بج کر آٹھ منٹ پر ہم نے سفر شروع کیا ۔میری بدقسمتی دیکھئے کہ میرے والا سارا سامان میرے ہی حصے میں آیا۔ طے پایاں تھا کہ ہم صرف ضرورت کا سامان اٹھا کر باقی سامان واپسی پر حمد اللہ کے دکان سے اٹھا لینگے لیکن محمد کریم کو کچھ اور سوجھا، کہا کہ واپسی پر ہم اسی راستے سے نہیں بلکہ کنڈاونوں مطلب بر کنڈاو اور کوز کنڈاو کے راستے واپس جائے گے۔ چونکہ دوہ سرو کے پہاڑی علاقے منگلور و مضافات کے ملکیت ہے اسی وجہ سے ہمارے دادا بھی ہمارے لئے بر، کوز کنڈاو اور بوزغلے ڈب میں زمینیں مطلب پورے کے پورے پہاڑ چھوڑ کے چلے گئے تھے، جو میرے چچاوں نے بھی نہیں دیکھے تھے، بلکہ سال میں ایک مرغی اور کوئی مناسب دیسی گھی گھر دے دیتے تھے۔ میری خواہش تھی کہ وہ زمینیں بھی دیکھی جائے۔ خیر سفر شروع ہوا تو سردی محسوس ہوئی صبح کی یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھی، اور دوہ سرو بہت صاف دکھائی دے رہا تھا، میری خوش قسمتی دیکئے کہ ہم نے نہ صرف اس کا نظارہ کیا بلکہ آپ لوگوں کیلئے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ بھی کیا۔دریا سے ہوتے ہوئے ہم ہمارے سامنے ڈھیر سارے قدرتی چشمے بھی آتے گئے جس کا ہم نے پانی پیا اور بوتل میں بھر کر محفوظ بھی کیا۔ اب منی کا موس ختم ہونے کو جب ہو تو اس میں قدرتی چشمے ختم ہوجاتے ہیں اور جو رہ جاتے ہیں اس میں درختوں کے جڑوں کی بو ہوتی ہے جو عجیب سا احساس دلاتی ہے، گاوں کے باسیوں کے مطابق یہ پانی منرلز سے بھرپور ہوتی ہے اور اسی خوب پینا چاہئے۔اوپر دوہ سرو پر چڑھتے دوران بھی چشمے ختم ہوجاتے ہیں لہذا آپ کو بوتل میں۔ پانی بھر کر لینی چاہئے۔ چلتے چلتے اور پیاس لگتی اور پانی کم محسوس ہونا شروع ہوا۔ خیر سے گھر سے پانی مانگا تو پانی کے ساتھ ساتھ لسی، پھر چائے اور جوار کی روٹی ملی۔ جس نے سفر کا مزہ دوبالا کردیا۔ چلتے چلتے، رکتے رکتے ہم ساڑھے دس بجے غوجلو ڈب پہنچ گئے۔ یہاں پر کچھ لوگ پہلے بیٹھے تھے جن سے ہماری ملاقات ہوئی اور وہ لوگ دنبے کو پکانے میں مصروف تھے، ہم نے فوٹوز لئے، پھر سے لسی پی اور آگے چل دئے۔اب مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں سے دوہ سرو پیک مطلب چوٹی دو گھنٹے کے فاصلے پر ہے۔میرا تو برا حال تھا، پر جب راستہ کچھ عجیب لگا تو ایک بوڑھی اماں سے ملاقات ہوئی جس نے کہا میں بھی جارہی ہوں کیونکہ میرے دو مہمان آئے ہیں انہیں سوکئی مطلب چوٹی دکھانی ہے۔ یار ماں جی اتنی بوڑھی پر مجھے شرم آتی میرا سانس پھولا ہوتا تو میں آرام نہیں کرسکتا تھا۔ خیر دو گھنٹے میں ہمیں لگا کہ ہم دوہ سرو پہنچ گئے اور ہم اوپر چڑ گئے عجیب سے جھاڑیوں کے اوپر نیچھے۔ اوپر چڑھ کر پتہ چلا یہ فالس الارم ہے اور ہم راستہ بھٹک گئے ہے، مشکل سے نیچھے اترے اور تشریف مبارک میں ڈھیر ساری کانٹے پھنسے، جس کا میں نے ابھی تک کسی سے زکر نہیں کیا، کسی کو بتا کر وہ دیکھنے پر بضد ہوگا جو مجھے منظور نہیں، خیر اماں جی بھی پہنچ گئی اور اور کہا کہ یہ والا راستہ ٹھیک ہے، خیر سے ہم نے دوبارہ سفر شروع کیا، اماں نے پیچھے سے آواز دی، بیٹا آپ لوگ تو آئے ہو تصویریں لینے لہذا ہماری کوئی تصویر نہ لینا، اماں کو میں نے مطمئن کیا کہ آپ ہمارے اپنی ماں بہن کی طرح ہو لہذا تسلی رکھو۔ خیر اوپر چڑھنے لگے۔ایک بجہ ہونے کو تھا تو ہم نے پہلے بار دوہ سرو کے غرور والے سر پر پیر رکھا اور اپنے تھکان بھرے پاوں کو دوہ سرو کے سر پر رکھ کہ غرور کو خاک میں ملانے کی کوشش کرنے لگے لیکن شائد اس سے کچھ نہ ہونے والا ہو، پر نیچھے کی حسین مناظر دیکھ کر جیسے میدان جنگ میں سپاہی ہاتھ میں تلوار لئے حسن و جمال سے بھری لڑکی دیکھ کر میدان جنگ میں اپنا مقصد بھول جاتا ہے، اسی طرح میری ساری تھکان سے دھیان ہٹ گیا، اور میں قدرت کے حسن و جمال کو ہی دیکھتا رہ گیا۔ہمارے علاوہ تین لوگ اور بھی ہے، جنہوں نے ہمیں وصول کیا اور کہا کہ وہ ادھر ہی کے ہے اور نیچھے بانڈو میں رہتے ہیں، کچھ دیر گم ہونے کی بعد بورنگ مرحلہ یعنی فوٹوز لینے کا آیا تو ہم فوٹوز اتارنے میں مصروف ہوگئے،ایک لڑکے کو میں نے جب یہ سنا کہ کاش میرا فون صحیح سلامت ہوتا ہم بھی فوٹوز لے سکتے تھے، لڑکے کو میں بلا لایا اور اپنا ایک موبائیل اسے دے کر کہا کہ جتنا چاہوں تصاویر لو، میموری بھی بہت ہے اور چارج بھی۔ خوش ہوئے اور شروع ہوگئے۔ اب محمد کریم تو کمالی بندہ ہے نے جاتے جاتے کہا کہ مجھے بہت غصہ آتا ہے جب لوگ یہاں اس ستون پر کھڑے ہوجاتے ہیں ، کہا وہ لوگ تو پاوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں دوہ سرو کے ٹاپ پر ، میں سر پر کھڑا ہوجاتا ہوں۔ خیر محمد کریم نے اپنا یہ ارمان بھی پورا کیا۔ بعد میں ہم بیٹھے اور ساتھ میں کچھ کھایا پیا ، میوزک سنا، اور تو لیٹ گئے دوہ سرو کے اوپر۔ جب وہ لڑکے جانے لگے تو میں نے کہا کہ چلو ساتھ میں چلتے ہیں ہمیں راستہ بھی دکھانا اور ساتھ گپ شپ بھی چلے گی، جو انہوں نے منطور کرلی، انہوں نے اٹھتے ہی ہمارے بیگ بھی اٹھا لئے اور ہم نیچھے کو اترتے گئے، لیکن مجھے محسوس ہوا کہ اترنا میرے پاوں میں بہت درد پیدا کررہی ہے اور نیچھے جاکر تو میرا اور جانا محال ہوا لیکن میں نے کچھ نہیں کہا۔ خیر چلتے چلتے ہم پہنچے لڑکوں کے گھر جس کو لوکل زبان میں منڈاونہ کہتے ہیں، وہاں پہنچ کر انہوں نے ہمیں پانی، لسی اور روٹی کھلائی اور رات بسر کرنے کیلئے کہا لیکن محمد کریم کو کل یونیورسٹی جانا تھا لہذا آج ہی ہم نے واپسی کرنی تھی۔ لڑکوں میں سے ایک نے کہا کہ ادھر ایک شارٹ کٹ راستہ ہے جو ڈائرکٹ ازبکہ جاتا ہے وہاں سے چلے جانا، جس کا سن کا ہم خوش ہوئے، تفصیل مانگنے پر اس نے میرا بیگ پکڑ کر کچھ آگے آکر ہمیں چھوڑنے کا پروگرام بنایا۔ہم کوئی دس منٹ چلے تو اس نے محمد کریم کو راستہ سمجھایا کہ اسی طرح جانا ہے۔ہم راستے پر چل دئے۔

 

اب اصل قصہ تو ادھر سے شروع ہوا۔ مزے سے جارہے تھے کہ اچانک سے راستہ جیسے ختم ہوا ہو۔ میں تو حیران ہوا، پر میں نے کریم سے کہا کہ پیچھے میں نے ایک راستہ دیکھا ہے اسی پر چلتے ہیں، لیکن محمد کریم کے ریکارڈ میں پیچھے آنا نہیں لکھا، لہذا وہ کچھ سوچ کر آگے بڑھا۔ محمد کریم کیلئے یہ جاننا ضروری تھا کہ میں بھاری بھرکم چوراسسی کلو گوشت اور کوئی ایک ٹن بیگ کے ساتھ کیسے جاسکتا ہوں، لیکن فریاد تو میرے ریکارڈ میں نہیں لکھا تو میں نے بھی آگے جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اب مسئلے ہوگئے دو، ایک کہ رات کو بارش کی وجہ سے ساری زمین گیلی پڑی تھی اور یہ گھاس بھی بہت گیلی تھی اور تو میرے جوتے بھی بار بار پسل رہے تھی، دوسرا یہ کہ دو پہاڑآپس میں ملے ہوئے تھے تو پہاڑ جگہ جگہ دراڑ پڑے تھے۔ گھاس پر پاوں رکھ کر کبھی پتہ چلتا کہ میں نیچھے تک جاونگا اور شائد کوئی ہماری مدد کرنے کو بھی نہ آئے۔ لہذا ایک قدم رکھنا ہوا تو تسلی سے نیچھے زمین چیک کرتے کہ دراڑ تو نہیں ، اور تو کبھی گھاس پھوس اتنی زیادہ ہوتی کہ نیچھے بس لگتا کہ کھائے ہی ہوگی۔ خیر ایک قدم پانچ منٹ میں لینا پڑتا۔ ایک جگہ پہنچ کر لگا کہ نیچھے ہزاروں فٹ لمبی کھائی اورراستہ نہ ہونے کے برابر۔ خیر محمد کریم کرتے کرتے راستہ نکالتے، اور میرے لئے راستہ بناتے۔ میں لاٹھی زور سے دبا کر اس پر پاوں رکھتا اور اوپر سے گھاس پکڑتا اور اگلے پیر کیلئے انتظار کرتا، ساتھ میں میرا کام ہوتا محمد کریم کو ایک ہاتھ سے سپورٹ دینے کا۔ محمد کریم چونکہ منرلز ڈیفیسٹ کا مریض تو اچانک کہا کہ میرا سر چکرا رہا ہے، اور میں کھڑا نہیں ہوسکتا، اس وقت میرا آسرا سے دو تھے، ایک آللہ اور دوسرا محمد کریم، محمد کریم کو میں نے  کہا کہ بس اسی طرح کھڑے رہو، اور نیچھے نہ دیکھو۔ کریم کا اصل مسئلہ میں تھا وہ تو ایک سیکنڈ میں نکل سکتا تھا لیکن میرے لئے رکتا جگہ بناتا پھر مجھے لاٹھی سے سپورٹ دیتا پھر آگے بڑھتا۔ خیر اللہ کرکے ایک جگہ پہنچے یہاں سب سے پہلے موتروی سرجن کیا مطلب ٹنکی خالی کی، اس سے بھی کچھ وزن کم ہوا، اور پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔ پاس میں بھینسوں کی آوازیں بھی آرہی تھی، ہمارا مقصد تھا کہ کسی طرھ وہاں پہنچا جائے، لیکن ان ہمارے سامنے کم از کم اسی ڈگری کی چڑھائی جس کو ہم نے سیدھا پار کرنا تھا۔ کریم نے کہا جوتے اتاروں، اسے بیگ کے پٹی سے باندھا اور آبلے پاوں ان ہم نے اس پتھر کو کراس کرنا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب مجھے لگا کہ ہم بری طرح پھنس چکے ہیں اور ان ہماری رات ادھر ہی ہے۔ میں نے کریم کے اجازت سے دو تین چیخیں بھینسوں کے مالک کو لگائی جس کا جواب مجھے بھینس کے علاوہ اور کوئی نہیں دیتا۔کریم نے مجھے دیکھا پیٹ پر ہاتھ پھیرا تاکہ ہاتھ میں چپچپاہٹ آجائے اور چل نکلا، اور ماشااللہ وہ کراس کرگیا۔ اب میری باری تھی، محمد کریم نے کہا آپ ادھر بیٹھ جائے وہ کسی گھر سے بڑی رسی یا لوگوں کو بلائے گا تو وہ مجھے نیچھے اتارے گے، یاد رہے ہمارے پاس رسی تھی لیکن وہ پہلے ہی ہم سے گری تھی۔ اب میں نے اوپر دیکھا اور اللہ سے دل میں دعا مانگی، محمد کریم کا رنگ اڑھ گیا کہ میں کوئی غلط نہ کر بھیٹوں، لیکن میں نے اطمینان دلایا کہ سب خیر ہوگا۔ میں نے بھی ہاتھ پیر پیٹ تشریف شریف جہاں بھی میں نے ہاتھوں میں نمی لایا اور بسم اللہ پڑھ کر قدم رکھا، آنکھین بند کرلی اور بس پھر کیا ہوا دیکھا تو میں بھی وہ پسلن بھری چٹان جس کی اسسی ڈگری زاویہ ہوگا میں نے پار کیا۔ ایک مختصر سے جشن کے بعد جب نیچھے دیکھا تو کھیل اور بھی باقی تھا۔ اب ہم تنگی پر آئے تھے، مطلب جہاں بارشی پانی بہتا ہو،محمد کریم نے کہا کہ یہ جو بڑے بڑے درخت دیکھ رہے ہو کہ برف باری سے جب وزنی ہوجاتے ہیں تو وہ نیچھے پھینک دیتی ہے جو پسلن کی وجہ سے سرک جاتی ہے، اب محمد کریم آگے اور میں پیچھے، لیکن درخت کو پکڑ کر جب نیچھے اترنا ہوا تو وہ آگے کو چل دیتا، کریم نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہی کوئی بڑا درخت بے قابو ہوکر اسے نیچے اپنے ساتھ نہ لے جائے،لہذا طے ہوا کہ وہ پیچھے آجائے اور میں آگے رہو کیونکہ کریم بغیر سپورٹ کے بھی جاسکتا تھا، لیکن میری کہانی الگ تھی۔ خیر کوئی تین گھنٹے میں ہم اسی جگہ سے نیچھے بحفاظت نیچھے اترنے میں کامیاب ہوئے۔اب کی بار ہم نے پھر سے کچھ کھایا پیا، آرام کیا اور چل دئے۔ یاد رہے اب ہم ازبکہ میں ہے اور ہم واپسی اسی راستے سے کرے گے جس راستے سے آئے تھے۔ تقریبا شام کے چھ بجے ہم حمد اللہ کے دکان پہنچے۔ اور آگے کا سفر باندھا۔رات ہوئی تو ہم نے ٹارچ اور لائٹیں لی، پر اب ایک دوسرا مسئلہ آگیا۔ پہاڑی علاقوں میں لوگ رات ہوتے ہی اپنی خطرناک کتے آزاد چھوڑ دیتے ہیں  جو ان کی رکھوالی کرتے ہیں۔ تقریبا رات کے آٹھ بجے ایک گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے کتا بھونک رہا تھا لیکن میں نے اتنا سیرئس نہیں لیا کہ ویسے بھونک رہا ہے، تھوڑا آگے جاکر لگا کہ کوئی شے ہماری طرف آرہا ہے، میرے پھرتی سے پیچھے مڑا، اور آواز کی سمت میں اپنا ہایکنگ سٹک جو ایک درخت کے تنے سے بنا تھا دے مارا جو سیدھا کتے کے جبڑوں پر لگا، کریم بھی پیچھے آیا تو دوسرا وار اس نے کیا، اچھا ہوا کتا لائیٹس کی وجہ سے بھاگا، اب ہمیں اور محتاط رہنا ہوگا۔

رات کے تقریبا ساڑھے نو بجے جب ہم کس پہنچنے والے تھے اور موبائل پر سگنلز آنے لگے تو ہم نے اس بندے کو کال کیا کہ سوئے نہیں ہم آرہے ہیں تاکہ ہماری بائک تیار ہو۔ جب ہم جارہے تھے تو وہ بائک نیچھے تک آئے کھڑا تھا ، فاصلہ طے کرنے کے بعد ان کا گھر جب آیا تو ہمیں جانے نہیں دیا کہ اب تو کھانا تیار ہے کیسے جاسکتے ہیں اس وقت۔ بہترین کھانا کھایا، میں تو کارپٹ پر دراز ہوا، تو میزبانوں نے قسم دیا کہ اب جا نہیں سکتے کیونکہ بہت تھک گئے ہو، کریم نہیں بھی حامی بھرلی، اور ہم سوگئے۔صبح ماشا اللہ سے ناشتہ کرنے کے بعد واپس آئے اور اسی طرح ہمارے سفر کا اختتام ہوا۔

 

اب کچھ ضروری باتین

دوہ سرو اور علاقوں پر چونکہ بارشیں اور برف باری ہوتی ہے تو وہاں صرف جون جولائی اگست میں لوگ ہوتے ہیں۔ان کے اصل گھر نیچھے ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے بھینسوں اور جانوروں کے صحت اور چارے کیلئے ہی جاتے ہیں۔ یہ لوگ جن گھروں میں رہتے ہیں اسے پشتو میں منڈاونہ کہتے ہیں، منڈاونہ کے ساتھ ایک مسجد بھی ہوتا ہے جسے کوئی بھی استعمال کرسکتا ہے بارش یا رات گزارنے کیلئے۔جب آپ جون جولائی اگست میں جاتے ہیں تو آپ کو کسی بھی چیز کی ٹنشن لینے کی ضرورت نہیں، آپ کسی بھی گھر سے پانی مانگو گے تو وہ ساتھ میں چائے اور خالص کھانا بھی دیتے ہیں، لہذا میں نے ان کی مالی مدد کی اور ان کی ہونی چاہئے۔چائے چینی تو پیسوں سے ہی آتی ہے نا۔

اگر آپ دوہ سرو پر جاتے ہیں تو کوشش کرے کہ اس وقت جائے جب بارش نہ ہوئے ہو، ورنہ راستے گیلی ہوتے ہیں اور سورج کی تپش میں اتنا دم نہیں ہوتا کہ وہ ایک دن میں راستہ قابل استعمال بنائے۔پر یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ دوہ سرو جایئں اور آپ بھیگ نہ جائے۔ لہذا بارش سے بچاو والا ششٹم لے کے جایئں ورنہ آپ کو بھیگی بلی بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا، اوپر سے آپ کا آئی فون بارہ بھی بھیگ جائے تو آپ بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاو گے، سو پلیننگ کرکے جایئے صاحب۔   

ہائکنگ سٹک ضرور لیتے جائے، درخت کا ٹہنہ بھی بہترین ہے وہ بہت مظبوط ہوتا ہے۔

خونخوار جانوروں کا سنا ہے لیکن میں نے نہیں دیکھے لہذا اسکا بھی بندوبست کرتے جائے۔

لوگ بے انتہا بہترین ہے، لہذا ان کے کلچر کا بھی احترام کیا جائے، ہم جب راستے میں کسی آدمی کو کسی خاتون کے ساتھ دیکھتے تو انہیں راستہ دیتے اور نظریں نیچے جھکاتے، یہ عمل ان کو پسند ہوتا ہے۔ ہم سب ووپر پر میوزک لگاتے لیکن جب کوئی گھر آتا یا راستے میں خواتین تو ہم میورک کو فاز کرکے جاتے۔ ہمیں اپنی خوشی کا خیال تو ہوتا ہے لیکن ہمیں ان کی خوشی کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔

یار خدا کیلئے سامان کم سے کم رکھا جائے، میں تو بایکر ہوں لہذا میرے ساتھ سامان بایک والا تھا، آپ طریقے سے ہلکا ہلکا سامان لے کر جائے ورنہ پھر آپ کو اپنی پیاری چیزیں پھیکنا پڑ سکتی ہے۔

ساتھ میں ٹافیاں اور کنفکشنریز رکھئے، راستے میں آتے جاتے بچوں کو دیا کریں، پیار بانٹئے۔ ان ٹافیوں کے پیسے مجھ سے لے یار۔۔ ۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

میں دنیا کا سب سے برا فوٹوگرافر ہو، اسی لئے میں زیادہ فوٹوز نہیں لیتا۔ خیر ریکارڈ کیلئے میں نے کچھ فوٹوز لئے ہے جو آپ کے خدمت میں پیش ہے۔۔۔۔

 

 

ایڈیٹنگ جاری ہے۔۔۔

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *